Wednesday, 22 April 2015

سائبر کرئم بل غیر جمہوری قرار دے دیا گیا

پیر کو جاری کیے گئے ایک مشترکہ بیان میں سینیٹ کے اراکین پر زور دیا گیا کہ وہ اس بل کے خلاف کھڑے ہوں اور اس بات کو یقینی بنائیں کہ سائبر کرائم پر کسی بھی قسم کی نئی قانون سازی کو مکمل طور پر انسانی حقوق کے بین الاقوامی معیار کے مطابق بنایا جائے۔
اس بیان میں کہا گیا ہے کہ ’’ہمیں اس عمل کے بارے میں شدید تشویش ہے، جس کے ذریعے الیکٹرانک جرائم کو روکنے کے مجوزہ بل کی مسودہ سازی اور اس پر نظرثانی کی گئی۔ سول سوسائٹی اور نجی شعبے سے مشاورت تو چھوڑیے، حکومت نے اس بل پر قومی اسمبلی میں ووٹنگ سے قبل حقیقی عوامی جانچ سے بھی روک دیا ہے۔ اس کے نتیجے میں ناصرف پاکستان میں جمہوری عمل مجروح ہوگا، بلکہ اس بل میں شامل کئی شقوں سے پرائیویسی اور اظہارِ رائے کی آزادی کو نقصان پہنچنے کا امکان ہے۔‘‘
بیان کے مطابق ’’اس بل کے سیکشن 34 سے مجموعی طور پر انسانی حقوق کے بین الاقوامی قوانین کے تحت پاکستان کی ذمہ داریوں کی خلاف ورزی ہوتی ہے، اور یہ بل پرائیویسی کے حق اور اظہارِ رائے کی آزادی کے تحفظ کے لیے کافی تعداد میں حفاظتی اقدامات شامل کرنے میں بھی ناکام رہا ہے۔‘‘
اس میں مزید نشاندہی کرتے ہوئے کہا گیا ہے کہ ’’یہ حکومت کو اختیار دیتا ہے کہ وہ کسی عدالت کی منظوری کے بغیر سروس فراہم کرنے والے اداروں کو کسی تقریر، آواز، ڈیٹا، تحریر، تصویر یا وڈیو کو ہٹانے یا اس تک رسائی کو روکنے کا حکم دے سکتی ہے۔‘‘
اس بیان میں کہا گیا ہے کہ عدالتی نگرانی کا خاتمہ کرکے یہ بل ’’استحصال کے لیے ایک بلینک چیک‘‘ فراہم کرتا ہے۔
ڈیجیٹل رائٹس فاؤنڈیشن کی نمائندہ نگہت داد نے ڈان کو بتایا کہ ان کی تنظیم بین الاقوامی صارفین کے حقوق کے لیے کام کررہی ہے، اور اس بل کو اس نے غیرجمہوری پایا ہے۔
انہوں نے کہا کہ ’’یہ بل خفیہ طور پر تیار کیا گیا تھا، اور کسی کو بھی علم نہیں کہ اس بل میں درحقیقت کیا شامل ہے۔ جو کچھ بھی اس میں شامل ہے، وہ ناقابلِ قبول ہے۔ یہ بل ایجنسیوں کو نگرانی اور کسی بھی مواد کو بلاک کرنے کا من مانا اختیار دیتا ہے۔‘‘
نگہت داد نے کہا کہ یہ بل ایجنسیوں کو کسی عدالتی نگرانی کے بغیر بڑے پیمانے پر کڑی نگرانی کا اختیار دیتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ ’’اس قانون کے مطابق ای میل کسی کو اس کی اجازت کے بغیر نہیں بھیجی جائے گی، دوسری صورت میں ای میل وصول کرنے والے بھیجنے والے کے خلاف ایف آئی آر درج کروا سکتا ہے۔‘‘
نگہت داد نے کہا ’’اس بات کا شبہ ہے کہ قومی ایکشن پلان کے تحت ہی سخت سزائیں دی جائیں گی، لیکن سول سوسائٹی کے سرگرم رہنماؤں اور صحافیوں کو نشانہ بنایا جاسکتا ہے۔‘‘

No comments:

Post a Comment