Tuesday, 21 April 2015

دستخط یا استعفہٰ

اسلام آباد: مایع قدرتی گیس کے تین سرکاری اسٹیک ہولڈرز نے ایک ڈرامائی صورتحال میں ایل این جی کے سہ فریقی معاہدے پر دستخط کرنے پر مجبور کیا گیا، جبکہ اس کے خلاف ان کی انتظامیہ مزاحمت کررہی تھی۔
وزارتِ پٹرولیم کے ایک عہدے دار نے بتایا ’’ایس ایس جی سی ایل اور ایس این جی پی ایل کے حکام کو عملی طور پر تقریباً تین دن تک یرغمال بنائے رکھا اور ایل این جی کی درآمدات اور اس کو دوبارہ گیس میں تبدیل کرنے کے لیے پی ایس او کے ساتھ ایک معاہدے پر دستخط کرنے پر مجبور کیا گیا۔‘‘
انہوں نے مزید کہا کہ گیس کے دونوں اداروں کے نمائندے اپنے بورڈز کی منظوری کے بغیر اس معاہدے پر دستخط کے لیے تیار نہیں تھے۔‘‘
ان کمپنیوں میں سے ایک کے بورڈز آف ڈائریکٹرز کے ایک رکن نے کہا ’’انہیں آدھی رات تک بیٹھے رہنے پر مجبور کیا گیا تاکہ وہ اس معاہدے پر دستخط کردیں۔‘‘
ذرائع کا کہنا ہے کہ پٹرولیم اور قدرتی وسائل کی وزارت نے ان تینوں کمپنیوں کے مینیجنگ ڈائریکٹروں سے کہا تھا کہ پیر کو اس معاہدے پر دستخط کریں یا پھر گھر جانے کے لیے تیار ہوجائیں۔
یہ صورتحال ایسے وقت میں پیدا ہوئی، جب پانچ کروڑ ڈالرز کی پہلی قسط کی ادائیگی میں چند دن رہ گئے تھے، اس لیے کہ ایل این جی کو دوبارہ گیس میں تبدیل کرنے اور پورٹ قاسم پر اینگرو ٹرمینل کے ذریعے ملکی نیٹ ورک کو فراہمی کے انتظامات میں حکومت ناکام رہی تھی۔
ذرائع کے مطابق اب تک ایل این جی کے انتظامات نہیں کیے گئے ہیں اور اینگرو ٹرمینل پر 16 اپریل سے کوئی کارروائی نہیں ہوئی ہے۔
ایک عہدے دار نے بتایا ’’اینگرو نے بطور خیرسگالی کے اپنے سروس چارجز معاف کردیے ہیں، اکیس اپریل تک ایس ایس جی سی ایل کی ضمانت پوری ہوجائے گی۔‘‘
ذرائع کا کہنا ہے کہ سوی سدرن گیس کمپنی لمیٹڈ (ایس ایس جی سی ایل)، سوئی نادرن گیس پائپ لائن لمیٹڈ (ایس ان جی پی ایل) اور پاکستان اسٹیٹ آئل (پی ایس او) کی قانونی اور ٹیکنیکل ٹیمیں اس سہ فریقی معاہدے میں داخل ہونے کے لیے تین دن سے زیادہ عرصے تک اسلام آباد میں روکے رکھا گیا تھا۔
ایس ایس جی سی ایل اور ایس این جی پی ایل کی انتظامیہ اس معاہدے پر دستخط کرکے خود کو پی ایس او اور بین الریاستی گیس کمپنی لمیٹڈ (آئی ایس جی سی ایل) کے حوالے کرنے سے گریزاں تھی، اس لیے کہ اس سے عوام کو ایل این جی کی فراہمی میں ناکامی کی تمام ذمہ داری ان پر ڈال دی گئی ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ بورڈ اور انتظامیہ کی منظوری کے بغیر اس طرح دستخط کرنے سے کمپنیز آرڈیننس، ایسوسی ایشن کی شقوں، سرکاری شعبے کے کوڈ، آئل اینڈ گیس اتھارٹی کے قواعد و ضوابط کی خلاف ورزی ہوئی ہے۔
انہوں نے کہا ’’یہ معاہدہ کمپنیوں کے لیے مالیاتی خطرہ ثابت ہوگا، اور ایک مخصوص پارٹی کو فائدہ پہنچانے کے لیے اہم شیئر ہولڈر کو نقصان پہنچایا جارہا ہے۔‘‘
اندرونی ذرائع کا کہنا ہے کہ ’’ان تینوں میں سے ایک مینجنگ ڈائریکٹر نے اس معاہدے پر دستخط کردیے اور اس دستخط کو بورڈ آف ڈائریکٹرز کی منظوری سے مشروط کردیا۔‘‘
گزشتہ جمعہ کو ایس این جی پی ایل کے مینجنگ ڈائریکٹر عارف حمید سے اس سہ فریقی معاہدے پر دستخط کے لیے کہا گیا، لیکن انہوں بورڈ کی منظوری کے بغیر اس بات کو ماننے سے انکار کردیا۔
ان سے کہا گیا کہ اگر وہ معاہدے پر دستخط نہیں کرسکتے تو پھر وہ استعفیٰ دے دیں۔
اطلاع ہے کہ عارف حمید نے اس معاہدے پر دستخط کیے بغیر کمپنی چھوڑ دی ہے۔
ایس این جی پی ایل کے بورڈ کے ایک رکن نے ڈان کو بتایا کہ عارف حمید کو بورڈ آف ڈائریکٹرز کی جانب سے ایس این جی پی ایل کے ہیڈکوارٹرز واپس بلالیا گیا تھا، اور انہیں اپنی مکمل حمایت کا یقین دلایا گیا اور انہیں مشورہ دیا گیا کہ وہ نہ تو استعفیٰ دیں، اور نہ ہی بورڈ کے مشورے کے بغیر کسی معاہدے پر دستخط کریں۔
ایل این جی کی فراہمی کے پچھلے معاہدے کے تحت ایس ایس جی سی ایل اور ایس این جی پی ایل کے بورڈ اجلاسوں کی کاروائیوں میں یہ واضح عزم کیا گیا تھا، کہ بالفرض ایل این جی کو گیس میں تبدیل کرکے فراہمی میں ناکامی کی صورت میں پی ایس او جرمانہ ادا کرے گا۔
سرکاری ذرائع کے مطابق اب تک پی ایس او قطر گیس یا کسی دوسرے سپلائرز کے ساتھ خریدوفروخت کے معاہدے میں ناکام رہا ہے۔
ایک گیس کمپنی کے بورڈ آف ڈائریکٹرز کے ایک رکن نے کہا کہ اس کے علاوہ پی ایس او، آئی ایس جی سی ایل کی مجموعی ذمہ داری تھی، اور بالواسطہ طور پر اینگرو اور پورٹ قاسم کی بھی کہ بڑے جہازوں کی ٹریفک کے لیے چینل کی گہرائی درکار تھی۔
انہوں نے کہا کہ بنیادی سوال یہ ہے کہ کیا اس کی اعلیٰ سطحی تحقیقات نہیں کی جانی چاہیے کہ مجوزہ ٹرمینل کی تعمیر کے لیے درخواست کس نے تیار کی تھی، کس نے اینگرو کو بطور ٹرمینل آپریٹر منتخب کیا تھا، اور کس نے ایل این جی کی سپلائی کے معاہدے کو تیار کیا اور اس پر دستخط کیے، جس کی پوری ذمہ داری گیس کمپنیوں پر ڈال دی گئی، اس حقیقت کے باوجود کہ وہ سپلائی کی چین میں سب سے آخری سرے پر تھیں۔
مذکورہ بورڈ کے رکن نے کہا کہ انہیں وزارتِ پٹرولیم کی جانب سے کہا گیا تھا کہ ان کے حکم کی پیروی نہ کرنے کی صورت میں ناصرف ایس این جی پی ایل اور ایس ایس جی سی ایل کے مینجنگ ڈائریکٹروں کو برطرف کردیا جائے گا، جن کی حال ہی میں تقرری ہوئی تھی، بلکہ پورے بورڈ آف ڈائریکٹرز کو بھی۔

No comments:

Post a Comment